وباء سازشی تھیوریز اور ہمارا سماج




موجودہ صورت حال میں ہم سب کے خد شات اور تحفظات یکساں ہیں۔ پوری دنیا اس وقت صحت کے بد ترین بحران 
سےدو چار ہے۔ اس صورت حال میں نہ صرف ہماراملک بلکہ تمام ممالک جو اس وقت اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں سب اسی جہد  میں مصروف ہیں کہ اس تگاوروباء کو کس طرح قابوکیاجائے۔ اس وباء کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ کچھ مزید محورگفتگو عنوان سامنے آئے ہیں جن سے آپ شاید واقف بھی ہونگے۔ اس تحریر کا مقصد انہی محور گفتگو 
عنوانات کو زیر بحث لا کر چند غلظ فہمیوں کو دور کرنا ہے۔

یاد رہے کہ کوئی  بھی وباء محض وباء کی صورت میں نہیں ابھرتی بلکہ اپنے ساتھ سازشی تھیوریز کی بھی دھول اوڑاتی ہوئی دھند کو برپا کر دیتی ہے۔ عالمی سطح پر اس کی مثال ووہان لیب سازشی تھیوری کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ خیر یہ موضوع ایک اور کالم کا وقت سرف کرے گا۔ میں یہاں ملک میں پھیلے  ایک من گھڑت تھیوری کا ذکر کرونگا۔ وبا کے پھیلنے کے ساتھ جس تھیوری نے جنم لیا ہے وہ کورونا جیسے مہلک مرض سے بھی زیادہ جان لیوا دکھائی دیتی ہے۔ یہ تھیوری چند لوگوں کے ذہنوں میں کچھ یوں جڑ پکڑ چکی ہے کہ وہ اس بات پر بالکل یقین نہیں کرتے کہ کورنا جیسی کوئی وباء وجود بھی رکھتی ہے۔

دہی والا خان بھائی مجھ سے ہر دفعہ پوچھتا ہے کیا میں نے کوئی کورونا کا مریض اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میں یہ سن کر دہی لے کر  بغیر کچھ  کہے واپس آجاتا ہوں۔ بینک کے سامنے قطار میں کھڑے دو بزرگ حضرات کو دیکھا۔ سوشل ڈسٹنسنگ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ کورونا ورونا کچھ نہیں۔ اور سب کھڑے حضرات کو باور کرا دیا کہ کورونا کا وجود ہی نہیں۔ اور چند ہی لمحوں میں چھ فٹ کا فاصلہ جو میں نے سوشل ڈسٹنسنگ کا پا لن کرتے ہوئے رکھا تھا وہ قطار میں لگے لوگوں سے بھرتا چلا گیا اور میں جوں کا توں کھڑا رہا۔ وہ تو گارڈ کی مہربانی کہ یہ سمجھ کر اندر جانے کو کہا کہ شاید میں کورونا سے بہت ڈرا ہوا ہوں۔ اسی طرح میں اپنے اخبار فروش دوست سے ملا۔ چونکہ میں سوشل ڈسٹنسنگ کا حامی ہوں، میں نے اس سے مصافحہ کرنے سے اجتناب کر رکھا ہے۔ لیکن اس کی رائے جاننے کے لیے میں نے اس سے مصافحہ کر لیا تو کہنے لگا کہ اب مجھے پتہ چلا کہ کورونا کا وجود ہی نہیں۔ اور اچانک سے کہنے لگا کہ یہ وباء مسلمانوں کے لیے نہیں۔ اس کے مطابق اگر یہ وباء آئی بھی ہے تو 'عورت مارچ' کرنے والوں کی وجہ سے۔ میرے دوست کا ماننا ہے کہ اب مرد بھی پردےمیں آ گئے ہیں۔

کامن سینس کی بات ہے۔ اتنے خطرناک مرض میں مبتلا مریض کو کیوں کرکسی چورائے پر کھڑا کر کےنمائش کیا جائے- کیوں گر لوگوں کو اس کی درشن کرائی جائے کہ لوگ وائرس کا آشیرواد لے کر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ یہ بات تو  ایک چھوٹی سی تحقیق سے بھی ممکن ہوسکتی ہے۔ چند ہسپتالوں کا ایک سروےکر کے آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کورونا کا کوئی مریض واقعی موجود ہے کہ نہیں۔ پر اس مہم کے تکمیل کے لیے جان کی بازی کون لگائےگا!

 اس بات پر تو دو رائے ہی نہیں کہ دنیا بھر میں اس وباء پر قابو لاک ڈائون کی ہی بدولت ممکن ہوا ہے۔ اس رائے عامہ سے منسلک لوگ جو وائرس کے نہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں کسی بھی احتیاطی تدابیر کے استعمال سے انحراف کرتے ہوے دکھائی دیتے ہیں۔ معاشرہ کا یہ طبقہ وائرس کے پھیلاوٰ کا سبب بن کر ایک سماجی  بحران برپا کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس طبقہ کا وباء کو دیکھنے کا زاویہ مختلف ہے۔ اس طبقہ سے وابستہ افراد کی مجموعی سوچ وبا ءکی آسمانی تعریف سے پوری طرح  اثرانداز ہے۔ ماہر سماجیات، فرانک فراڈی، اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ وباء کی تعریف سماج کرتی ہے۔ فرانک لکھتے ہیں کہ کوئی بھی آفت سماج کے لیے تب تک آفت نہیں ہوتی جب تک اس سےلوگوں کی زندگیوں اور  معیشت کوخطرات لاحق نہ ہوں۔  یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ  کورونا کی وباء  موجود تو ہوتی لیکن اس سے معاشرے کو جانی و مالی نقصان کا خدشہ نہ ہوتا تو یہ ایک سماجی  آفت نہیں ہوتی۔ ان تمام زاویوں ،جن سے سماج ایک آفت کو آفت کی تعریف سے منسلک کرتی ہےکو فرانک کلچرل اسکرپٹ کا نام دیتا ہے اور مزید لکھتا ہے کہ کلچرل اسکرپٹ وہ چشمہ ہوتا ہے جس سے سماج آفت کو دیکھتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ باوجود اسکے کہ کورونا کی وباء اس وقت تک دو لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے، ملکوں کی معیشت بربادکر چکی ہے، ا ور سائنس کی     جدیدیت پر سوالات کھڑے کر چکی ہےہمارے ملک کاوہ طبقہ جو اس وائرس کے وجود سے انکار کرتاہے،اس سماجی چشمہ سے وبا ءکا ادراک کر رہا ہے جس سے اْسے آنے والے خطرات کی بھنک تک نہیں پڑرہی۔

Comments

Popular posts from this blog

The Unsung Artist

A cry from Schoolnamo Bay

الفاظ کا عملی جامہ کہاں ہے؟

Racing against time: integrating AI into education is inescapable

پاکستان میں صحت کا نظام ایک چوراہے پر