الفاظ کا عملی جامہ کہاں ہے؟


پاکستان  میں ںسڑکوں اور گلیوں میں ترقیاتی کام ہوتا ہوادکھائی دے تو سمجھ لیں عام انتخابات کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ عام انتخابات کی خوبی یہ ہے کہ کم از کم عوام کو انتخابات سے پہلے ہی کچھ کام ملتا ہے۔ مگر کچھ انتخابات ایسے بھی ہیں جن کا عوام کو نہ کوئی  بھنک پڑتی ہے اور نہ ہی کوئی ترقیاتی کام ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہاتھی کے دکھانے کے دانت کچھ اور کھانے کے کچھ اور۔

   اس طرح کے انتخابات بلوچستان کے شہرحب میں چند روز قبل ہوئے۔  یہ انتخابات کسی سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ حب میں موجود تمام  پرائیویٹ اسکولوں کی بنائی گئی ایک تنظیم پرائیویٹ اسکولز ایسوسیشن کی تھیں۔  یہ تنظیم کم و بیش دو سال سے حب شہر میں  فعال ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ یہ شہر میں معیاری تعلیم کی جِدوجَہد  کے لیے گامزن ہے۔

چونکہ یہ تنظیم محض تمام پرائیویٹ اسکولوں کے سربراہان کی ہے اس لیے اس  لفاظی پر نظر ثانی آپ خود کر سکتے ہیں  اور اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے جدوجہد کا حصول کیا ہو سکتا ہے۔ حب شہر میں کم و بیش 50 سے زائد پرائیویٹ اسکولز اس وقت فعال ہیں اور تعلیم کا معیار ایسے  رکا ہوا ہے جیسے کسی بکری کو اس کا مالک بیچنے کے لیے گھسیٹے اور وہ اپنے چاروں ٹانگیں زمین میں 
دھنسا کر کَس کر بریک لگا دے۔

المیہ تو یہ  ہے کہ  انتخابات سے قبل ہی تنظیم  انتشار کا شکار ہو گئی اور دو گروہوں
 میں بَٹ گیا۔  یوں دونوں گروہوں نے ایک دوسرے پر  شدید تنقیص کے تیر چلائے اور دونوں دھڑوں نے اپنے اپنے انتخابات کی تیاری شروع کر دی۔  یاد رہے کہ ان انتخابات کا اہم اسٹیک ہولڈرز یعنی اساتذہ کو بھی بھنک تک نہیں پڑی۔

آخر کار تنقیدی جائزوں سے تنگ آکر ایک گروہ نے انتخابات سے بائیکاٹ کر دیا اور دوسرے دھڑے نے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور یوں اپنی نئی شناخت کے ساتھ اُبھر آیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اس پرائیویٹ اسکولز ایسو سیشن کا تعلیم کے حصول کے لیے  جدوجہد کیا ہو سکتی ہے اور اس سے والدین اور ان کے بچوں کو کس حد تک فائدہ حاصل ہوا  ہے۔  ظاہری طور پر تو اس کا  جواب نہیں ہے۔  اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سکول کی ریڑھ کی ہڈی وہاں کا اسٹاف یا جنہیں ہم اساتذہ کہتے ہیں وہ ہوتے ہیں جو ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔  اساتذہ کے تنخواہیں اور چھٹیاں سال بھر ان کے لیے مشکلات کا ہی باعث بنتی ہیں۔  اس تمام عمل میں وہ ہمیشہ استحصال کا شکار رہتے ہیں  اور جاب سیکورٹی کے ڈر سے ٹِکّے رہتے ہیں اور تمام استحصال کو برداشت کرتے رہتے ہیں۔

پرائیویٹ اسکولز ایک اکنامک ماڈل کی شکل میں ابھر آئے  ہیں اس میں کوئی شک نہیں. اس دعوے کو  جانچنے کے لیے ایک ہی مثال کافی ہے۔  اساتذہ کے ہاتھ میں تو سالانہ امتحانات اور امتحانی فیس میں اضافے کی پرچیاں تو تھما دی جاتی ہیں  لیکن ان کی تنخواہوں میں اضافے کی کوئی بات نہیں کی جاتی۔  اور جب اساتذہ اپنے تنخواہوں میں اضافی کی بات کرتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ سکول کی مالی حالت اس وقت درست نہیں۔

بہرحال یہ مسئلہ پرائیویٹ اسکولز ایسوسیشن کی ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہے  اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایسوسیشن محض اپنے مفادات کی تحفظ کے لیےکام کرتی ہے اور اس غرض سے بنائی گئی ہے۔

چونکہ پرائیویٹ اسکولوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کوئی جامعہ عمل موجود نہیں،  اس دوران والدین کا کردار بہت ہی اہم ہو جاتا ہے۔  بلوچستان میں شرحِ خواندگی بہت کم ہونے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کے بعد ان کی تعلیم کا کوئی جائزہ نہیں لیتے جس کی بدولت سکول اور اسکول کی انتظامیہ پر تعلیمی معیار برقرار رکھنے  کے اصول کے لیے احتساب کرنا ایک کٹھن امر بن جاتا ہے۔

پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے والدین کو ہر ماہ اپنے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لینے اسکول کا دورہ کرنا لازمی ہے۔  اسے دو بڑے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔  پہلے اسکول انتظامیہ پر یہ پریشر ہمیشہ قائم رہے گا کہ وہ اسکول کی تعلیمی معیار  کی بہتری پر توجہ دے۔  دوسرا بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے باریک بینی سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب پرائیویٹ اسکولز ایسوسیشن  کو اساتذہ کے حوالے سے  اپنا لائحہ عمل منظر عام پر لانا ضروری ہے۔  اس سے یہ بات یقینی ہو جائے گی کہ یہ ایسوسی ایشن ایک آمرانہ طور پر نہیں بلکہ جمہوری طور پر اپنے سرگرمیوں کو سر انجام دے رہی ہے۔

تاہم قبل از وقت اس طرح کے اقدامات منظر عام پر دکھائی نہیں دیتے۔  بلکہ پرائیویٹ سکولز اپنے کیمپسز کو بڑھانے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ 2017 میں ایک مہنگے اسکول کے  افتتاحی تقریب میں جانے کا موقع ملا۔  جب میں نے اسکول کی تعلیمی معیار پر سوال اٹھایا تو انتظامیہ  نے مجھے یہ کہہ کر یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس وقت ان کے 11 کیمپسز ہیں۔ جواب میں میں نے محض اتنا ہی کہا۔ اللہ آپ کے کاروبار میں مزید برکت عطا فرمائے! 

Comments

Popular posts from this blog

The Unsung Artist

A cry from Schoolnamo Bay

Racing against time: integrating AI into education is inescapable

The delayed cheque